top of page
Search

غزہ خندق

Writer: محمد عثمان فاروقیمحمد عثمان فاروقی

*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*


*غزہ خندق*


⁦✍️⁩ *محمد عثمان فاروقی*


*ان شاءاللہ تعالیٰ 15 نومبر لیاقت باغ سے فیض آباد مارچ زیر قیادت امیرالمجاہدین علامہ خادم حسین رضوی*


*ﷲ نے اہل ایمان کی اس طرح مدد فرمائی کہ ا ایسی آندھی چلی کہ سارے خیمے اکھڑگئے ہانڈیاں الٹ گئیں اور کھانے پینے کا سامان خراب ہو گیا*


اسلامی غزوات میں غزوہ خندق کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ اس جنگ کو غزوہ احْزاب بھی کہا جاتا ہے۔غزوۂ خندق کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں نے خنْدق کھودی تھی جبکہ احْزاب نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ دشمنوں کے کئی حِزْب یعنی گروہ مِل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے۔

مسلمانوں کی آزمائش اور جنگ کا اختتام اس غزوہ میں مسلمانوں کی سخت آزمائش ہوئی سخت سردی کا موسم، شہر سے باہر محاصرہ کئے ہوئےدشمن ، بے سرو سامانی کی حالت اور پھر منافقین اور بنوقُریظہ کی بدعہدی نے ایسے حالات پیدا کردیئے جسے قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا:

(زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا(۱۰)


ترجمۂ کنز الایمان: ٹھٹک کر رہ گئیں نگاہیں اور دل گلوں کے پاس آگئے اور تم اللہ پر طرح طرح کے گمان کرنے لگے(پ21، الاحزاب:10)

اللّٰہ تعالٰی کے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم نے یوں اپنے مالکِ حقیقی جلّ جل لہ کی بارگاہ میں عرض کی: اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ،سَرِيْعَ الحِسَابِ،اِهْزِِمِ الأَحْزَابَ،اَللّٰهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُم

یعنی اے اللّٰہ تعالٰی! اے کتاب کو نازل فرمانے والے! جلد حساب فرمانے والے! ان گروہوں کو شکست دے، اے اللہ! انہیں شکست دے اور ان پر زلزلہ برپا کردے

(بخاری،ج3،ص55، حدیث: 4115)


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کو ٹوکریاں نہ مل سکیں تو انہوں نے اپنے کپڑوں میں ہی مٹی ڈھونا شروع کردی۔ یہ کام تین ہفتے میں مکمل ہوگیا۔ شوال کے آخری ہفتے میں کفار کی آمد کی اطلاع ملی تو تجویز کے مطابق عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں بھیج کر ان کی حفاظت کے لیے چھوٹے دستے مقرر کردیے گئے۔

آخر ایک دن کفار کے مشہور شہ سوار مسلمانوں کی طرف بڑھے تو خندق دیکھ کر حیران رہ گئے۔ عرب خندق کے فن سے ناواقف تھے اس لیے کہنے لگے کہ ہم نے یہ نیا مکر دیکھا ہے ایسا مکر عرب میں کوئی نہیں جانتا۔ انہوں نے خندق کو پار کرنا چاہا تو مسلمانوں نے تیر اندازی کرکے انہیں روک دیا۔ لیکن ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی جہاں سے انہوں نے خندق عبور کرلی۔


اس موقع پر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے آگے بڑھ کر خندق پار کرنے والے عمرہ بن عبدو کو موت کی نیند سلا دیا جس کے بعد کوئی بھی خندق پار کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ دونوں طرف سے تیروں کی بارش ہوتی رہی۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللّٰہ عنہ کی کلائی میں ایک تیر لگا اور اسی کی وجہ سے ایک ماہ بعد ان کی شہادت ہوگئی۔ اس جنگ میں



(مختلف روایات کےمطابق)


20،15یا24دن محاصرہ قائم رہنے کے بعد کفّار میں باہم پھوٹ پَڑگئی۔اللّٰہ تعالٰی نے مسلمانوں کو یوں سُرخ رُو فرمایا کہ ایک رات اتنی زبردست آندھی آئی جس سے کفّار کے خیمے اُکھڑگئے، ان کی ہانڈیاں اُلٹ گئیں،فرشتوں کی ایک جماعت آئی جس نے خیموں کی طنابیں کاٹ کر ان میں آگ لگادی اور کفّار کے دلوں میں رُعْب ڈال دیا۔ چنانچِہ کفّار کو بھاگنے کے بغیر چارہ نہ رہا۔

اثرات :اس جنگ کے بعد کفار پر مسلمانوں کا ایسا رعب طاری ہوا کہ دوبارہ انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ہمّت نہ ہوئی، یہاں تک کہ مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔


*تحریک لبیک پاکستان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ محمد عثمان فاروقی*


*⁦®️⁩*


 
 
 

Comments


Post: Blog2_Post

Subscribe Form

Thanks for submitting!

©2020 by محمد عثمان فاروقی. Proudly created with Wix.com

  • Twitter
bottom of page