*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
✍️ *محمد عثمان فاروقی*
1 *انسانیت کے اصل دشمن*
2 *اسلامی سزائیں*
3 *قانون تحفظ ناموس رسالتﷺ*
انسانیّت کے حقیقی دُشمن
انسانی حقوق کی آڑ میں اسلامی حدود پر اعتراض کرنے والے غور کریں کہ اسلام نے جرائم کی روک تھام اور حقوقِ انسانیّت کے تحفظ کے لئے کیسے اہم اقدامات کئے ہیں یقینا ًایک انسان کے لئے اس کی جان و مال اور عزّت سب سے اہم چیز ہوتی ہے اگر اسلام نے ان چیزوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے انتہائی سخت قوانین نافذ کئے تو اسی میں انسانیت کا تقدس ہے جبکہ ان حدود کو غیرانسانی قرار دے کر ان پر اعتراض کرنا انسانیت کے دائرے سے نکل جانے والے مجرموں کی حمایت اور حقوقِ انسانیت کی کھلم کھلا تذلیل کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے کہ چور کو سزا اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے کسی کے مالی حقوق کو پامال کیا، زانی کو سزا اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے انسانی عزّت کی دھجیاں بکھیر دیں، شرابی کو کوڑے اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ اس نے اپنی ہی ذات کے تقدس کو نظر انداز کردیا، تہمت لگانے والے کو سزا اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے ایک پاک دامن انسان پر کیچڑ اُچھال کر اس کی معاشرتی عزّت کو مجروح کیا، اب ذرا سوچئے! کیا چور کو سزا نہ دینے میں جس کی چوری کی گئی اس کی حق تلفی نہیں ؟ اسی طرح زانی ، شرابی اور دوسرے مجرموں کو سزا نہ دینے میں کیا انسانیّت کی تذلیل نہیں ؟ یقیناً ان تمام لوگوں کو سزا نہ دینے میں انسانیّت کی تذلیل ہے اور اسلام میں اس تذلیل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، اسلام ان مجرموں کو معاف کرکے انسانیّت پر ظلم کرنے کے بجائے انہیں سزا دے کر انسانیّت پر احسان کرنے آیا ہے۔ انسانیت کا بہت بڑا محافظ ہےجبکہ اس کے برعکس اسلامی سزاؤں کو ظلم قرار دینے والے ہی درحقیقت انسانیّت کے بہت بڑے دشمن ہیں ورنہ انہیں اُس وقت انسانی تقدس کیوں نہیں نظر آتا جب خود کو مہذّب کہلانے والی قومیں اپنے نظریاتی مخالفوں اور جنگی قیدیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتی ہیں۔ کیا سگریٹ سے جسموں کو داغنا، بجلی کے جھٹکے (Electric shocks) دینا اور بھوکے کتّوں سے زندہ انسان کی بوٹیاں نوچوانا انسانیّت پر ظلم نہیں؟ کیا اُس وقت انسانیّت کا تقدس پامال نہیں ہوتا جب ایسی سزائیں دی جاتی ہیں جنہیں لکھنے کی قلم میں سکت ہے نہ بیان کرنے کا زبان میں یارا، بلکہ انہیں سن کر ہی سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی حدود اور شرعی سزاؤں میں نہ انسانیّت کی تذلیل ہے نہ حقوقِ انسانیّت کی پامالی بلکہ اُس بغاوت ، جُرم اور سرکشی کی تذلیل ہے جس نے انسانیّت کو لائقِ احترام نہیں سمجھا لہٰذا شرعی سزائیں یقینی طور پر تحفظِ انسانیت کی ضامن ہیں اور انہی میں انسانیّت کا تقدس ہے۔
جب اسلام میں ایک عام آدمی کی جان و مال ، عزت و ناموس پر حملہ کرنے والے کے لئے سخت سزا مقرر کی گئی ہے تو پھر مُحسنِ انسانیّت، پیکرِ عظمت وشرافت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم مکی ناموس پر حملہ کرنے والے کے لئے کسی قسم کی نرمی یا معافی کی گنجائش کیونکر روا رکھی جاسکتی ہے ؟ انہی کی بدولت تو انسانیّت کو ذِلّت سے نجات ملی اور عزّت کا تاج نصیب ہوا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم ںکی گستاخی تو عام جُرم کے مقابلے میں جُرمِ عظیم ہے ۔ قرآن وحدیث اور اہْلِ علم کے اجماع کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ گستاخِ رسول ﷺ کی سزا قتل ہے۔
فقہا کی نظر میں گستاخ کا حکم
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری گستاخِ رسول کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب”کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب“میں لکھتے ہیں: نبی کی ادنیٰ سی گستاخی کرنے والا بھی کافر و مُرتَد ہے۔ ”شِفا ء شریف“ صَفْحَہ 215 پر ہے: عُلماء کا اِجماع ہے کہ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والا کافِر ہے اور اس پر عذابِ الٰہی کی وعید جاری ہے اور امّت کے نزدیک وہ واجبُ الْقَتل ہے اور جو اس کے کفر اورعذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافِر ہے۔
خاتَمُ المحققین علّامہ سید محمد امین ابنِ عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السّامی تحریر فرماتے ہیں کہ علّامہ تقی الدین سبکی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب”السَّیْفُ الْمَسْلُوْل عَلٰی مَنْ سَبَّ الرَّسُوْل“میں بیان کرتے ہیں: قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص سرکارِ مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کرے اور سبّ و شتم (گالی گلوچ) سے کام لے وہ واجب القتل ہے۔
حضرت ابو بکربن المُنْذِر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمام اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص حضورِ اکرم نورِ مجسّم ﷺ کو سبّ و شتم کرے اس کا قتل واجب ہے۔
خود سرورِ دوعالم، نورِ مُجسَّم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ناموس کے تحفظ کے لئے فرمایا: مَنْ سَبَّ نَبِیّاً فَاقْتُلُوْهُ
یعنی جو شخص کسی بھی نبی کوگالی دے اسے قتل کردو۔ لہٰذا اس قسم کی شرعی سزاؤں کو فساد کا نام دینا کسی طرح بھی درست نہیں البتہ کسی نبی علیہ السلام کی گستاخی کو نظر انداز کر کے گستاخ کو معاف کر دینے سے فساد ضرور لازم آتا ہے کہ لوگ اس پر جری ہو جائیں گے شاید یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے منصبِ رسالت کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لئے دین اور پیغمبرِ دین کا مذاق اڑانے والے بے باک لوگوں کو معاف نہیں فرمایا بلکہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان اجمعین کو بھیج کر معاشرے کے ان ناسُوروں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا یا پھر صحابۂ کرام نے خود ہی غیرتِ ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے لوگوں کا قلع قمع کیا
*تحریک لبیک پاکستان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ محمد عثمان فاروقی*
Comments