*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
✍️ *محمد عثمان فاروقی*
1) *گستاخانِ رسول ﷺ ایک بار پھر متحرک*
گستاخی کا یہ بدترین فعل جو آج سے سینکڑوں برس پہلے کفار نے اپنایا آج ایک بار پھر نئے انداز اور نئے طریقوں سے شروع ہوچکا ہے ۔ اُس وقت بھی کفار جب مسلمانوں کے دلوں سے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام کی محبت مٹانے میں ناکام ہوگئے تو گالی گلوچ اور گستاخیوں جیسی گھٹیا حرکتوں پر اتر آئے اور اِس دور میں بھی مغربی ممالک کے اندر اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر دشمنانِ اسلام اور گستاخانِ رسول ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں کبھی قرآن کی بے حرمتی کرتے ہیں تو کبھی محبوبِ رحمن، سرورِ ذیشان صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ عالیہ کے توہین آمیز خاکے بناکر دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی دل آزاری کرتے اور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں ۔ یقیناًجب رحمتِ کونین، رسولِ ثقلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بے ادبی کی جائے گی تو ایک مسلمان اپنے جذبات پر کیسے قابو رکھ سکے گا…؟ کیا اس کا دل خون کے آنسو نہ روئے گا…؟ کیا اس کی زبان پر اس گھٹیا حرکت کی مذمت جاری نہ ہوگی… ؟ ظاہر ہے ہو گی اور ضرور ہوگی بلکہ ہر مسلمان کا دل اور زبان چیخ چیخ کر یہ اعلان کرتے ہونگے :
بتلادو گستاخِ نبی کو غیرتِ مسلم زندہ ہے
دین پہ مرمٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے
یاد رکھئے! ایک مسلمان کے دل میں پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمہ وقت موجزن رہتی ہے اور رہنی بھی چاہئے کیونکہ یہی تواس کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ اور اس کے ایمانِ کامل کا ذریعہ ہے ۔ جیساکہ حضرت سیدنا انس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں۔
یہی وجہ ہے کہ جب جب گستاخانِ رسول کی طرف سے ناموسِ رسالت ﷺ پر کوئی آنچ آئی تو اُس کے نتیجے میں بالعموم دنیا بھر کے اور بالخصوص پاکستان کے عاشقانِ رسول ﷺ مُسلمان اپنے اپنے انداز سے اس گستاخانہ حرکت کا سدِّباب کرنے اور اس سے پہنچنے والی تکلیف اور درد کا اظہار کرنے کے لئے سراپا احتجاج بن گئے گویا زبانِ حال سے یہ اعلان کرنے لگے:
ہم نے ہر دور میں تقدیْسِ رسالت کیلئے وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی ہے
توڑ کر سلسلۂ رسمِ سیاست کا فسوں صرف اک نامِ محمد ﷺ سے محبت کی ہے
گذشتہ اَدْوَار میں مسلمانوں کی عملی پختگی، احکامِ اسلام کی بجاآوری اور جذبۂ عشْقِ رسول کی پاسداری کے سبب کفّار توہیْنِ رسالت کے ارتکاب سے ڈرتے تھے وہ جانتے تھے کہ مسلمان جاگ رہے ہیں اس لئے ایسی حرکتیں کم ہی کرتے تھے لیکن اب تو باقاعدہ گستاخیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور کفار جفاکار اس قسم کی حرکتوں پر جری ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عملی طور پرنہایت ہی کمزور ہوچکے ہیں۔ ہماری اسی بے عملی اور بے حسی کو دیکھ کر کفار بے باک ہوگئے کہ جس مسلمان کو اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے اتنی محبت نہ رہی کہ وہ ان کی سُنَّتوں کو اپنائے بلکہ اس کی حالت تو یہ ہے کہ اسے کسی غیر مسلم کے ساتھ کھڑا کردو تو دونوں میں کوئی فرق نظر نہ آئے ایسے بے حِس مسلمان پر اس کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کا کیا اثر ہوگا؟ یہ تو غفلت کی چادر تانے سورہا ہے تھوڑی دیر کے لئے جاگے گا اور پھر سوجائے گا۔ صرف اس کی زبان محبتِ رسول کے نعرے لگاتی ہے بقیہ پورا وجود گستاخِ رسول سے مَحَبّت کے نعرے لگا رہا ہے۔ واقعی اس وقت اُمّتِ مُسلمہ کی اکثریّت غفلت کی نیند سورہی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر دشمنانِ اسلام سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ہرزَہ سرائی (بکواس) کرتے ہیں ایسے حالات میں اُمتِ مسلمہ کا اس غفلت کی نیند سے بیدار ہونا ناگُزیر ہے۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسُنّت مولانا شاہ احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں یاں وہ چور بَلا کے ہیں
تیری گٹھڑی تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
سونا پاس ہے سُونا بَن (سُنسان جنگل) ہے سونا زہر ہے اُٹھ پیارے
تو کہتا ہے نیند ہے میٹھی تیری مت ہی نرالی ہے
( حدائقِ بخشش، ص۱۸۵)
*تحریک لبیک پاکستان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ محمد عثمان فاروقی*
Comments